آندھی اور طوفان میں جنات کاسفر:قارئین! آپ کو یاد ہوگا پچھلی اقساط میں میں نے آپ کو فوقانی ثانی جن کا وہ عمل بتایا جس میں وہ ایک بوڑھی عورت کی شکل میں ایسی بیوہ جوان عورت کے مدد کرنے گیا جس کی جوانی پر اس کے دیور کی نظر تھی اور اس کا دیور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا اس نے اسے چاند کو دیکھ کر سورۂ العصر مستقل متواتر بے شمار دفعہ پڑھنے کو کہا تھا اور اس بیوہ نے چودھویں رات کو چاند کو دیکھ کر مسلسل یہ عمل پڑھا اور دیور کا حملہ اس سے ٹل گیا اور دیور کسی دوسرے ملک اپنے روزگار کے سلسلہ میں چلا گیا۔ قارئین! یہ ایک واقعہ نہیں اس عمل کے ساتھ اور بہت سے واقعات پیوستہ ہیں اور یہ عمل صرف اس ایک مقصد کیلئے نہیں بلکہ اس سلسلے میں فوقانی ثانی جن کا ایک واقعہ سناتا ہوں جو اس نے ایک ملاقات میں مجھے سنایا‘ فوقانی ثانی جن کہنے لگا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے میں اپنے روزگار کے سلسلے میں جارہا تھا پہاڑی سلسلہ تھا اورہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے‘ بالکل خشک پہاڑ‘ نہ کوئی سبزہ‘ نہ ہریالی‘ بس پتھر ہی پتھر تھے‘ میں سوچنے لگا ان پتھروں میں آخر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو رزق تو دیتا ہی ہے کیسے دیتا ہوگا؟ اور ان کا نظام کیسے چلتا ہوگا۔ یہی سوچیں مسلسل مجھے دل ہی دل میں آرہی تھیں اور میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا کیونکہ جنات کا سفر ہوا کا سفر ہے۔ جتنی ہوا کی رفتار ہوتی ہے اتنی ہی جنات کی رفتار ہوتی ہے لیکن تیز ہوا جسے ہم تیز آندھی کہہ سکتے ہیں۔ ہمیشہ طوفان اور آندھی اس میں جنات ہی ہوتے ہیں اورطوفان اور آندھی میں جو توڑ پھوڑ تباہی اور اکھاڑ بچھاڑ ہوتا ہے اس کے پیچھے بھی جنات کو قدرت ذریعہ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔جنات کو اللہ نے خوب طاقت دی ہے: جنات کو اللہ تعالیٰ نے بہت طاقت اور قوت دی ہے وہ جس روپ میں چاہیں آجائیں‘ وہ جونسا چہرہ چاہیں بنالیں اوروہ جیسی شکل چاہیںاس شکل میں ڈھل جائیں۔ ان کی شکل ان کا روپ اور ان کا چہرہ وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتے ہیں وہ سانپ کی شکل میں آسکتے ہیں‘ وہ چھپکلی کی شکل میں عموماً گھروں میں موجود ہوتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر چھپکلی جن ہی ہو۔ ضروری نہیں ہر سانپ جن ہی ہو۔ خود میرے پاس کئی جنات سانپ کی شکل میں آتے ہیں۔ فوقانی جن مزید کہنے لگا: کہ ہمارے جنات کی دنیا میں رفتار بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور یہ رفتار اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ عام انسان اس رفتار کا گمان نہیں کرسکتا اور عام انسان سوچ نہیں سکتا کہ اس رفتار کے ساتھ ہم کون کون سی چیزیں ساتھ لے جاتے ہیں۔ جنات کی انوکھی دنیا کا تعارف:جنات دوست کم اور دشمن زیادہ ہوتے ہیں لیکن جس کے دوست بن جائیں ان میں وفا کا عنصر بہت ہوتا ہےاور وفا کی کیفیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ دوستی کے بعد اگر ان سے کوئی جفا بھی کرے تو بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے اسے پیار سے سمجھاتے رہتےہیں اور پیار سے لےکر چلتے رہتے ہیں جنات کی دنیا بہت انوکھی دنیا ہوتی ہے ان کی موت کبھی بھی تنہا نہیں ہوتی بلکہ جب یہ مرتے ہیں تو ہزاروں میل دور سے ان کے رشتہ دار ان کی تعزیت اور ان کی خیرخبر لینے آتے ہیں۔عورت کی جستجو میں پاگل شریر جنات: فوقانی جن ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگا: ہمارے جو شریر اور بدکار جنات ہیں وہ ہمیشہ ایک جستجو میں رہتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی عورت ملے جس کا کھلا گلا ہو، ننگے بازو ہوں، کھلے بال ہوں، برہنہ یا نیم برہنہ اس کا لباس ہو کیونکہ جنات یعنی شریر جنات عورت کے بالوں اور اس کے جسم سے بہت پیارکرتے ہیں اور اس کے جسم سے بہت کھیلتے ہیں اور وہ اصل کھیل کھیلنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ وہ اس کے جسم کے اندر بے شمار بیماریاں داخل کرتے ہیں جس کو سائنسی دنیا ٹینشن، ایگزائٹی، خودکشی کا رجحان، جذباتی کیفیت بدکاری اور گناہوں کی طرف مسلسل رغبت، غصہ، چڑچڑاپن، غنودگی کی کیفیت اور ایسی لاعلاج بیماریاں جن کے بارے میں دنیا نے آج تک سنا ہی نہ تھا۔یہ جنات ہمیشہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح کوئی ایسا راستہ ملے یا کوئی ایسا طریقہ ملے جس سے ہمیں کوئی ایسی عورت میسر ہو جس کا ننگا جسم ہم دیکھیں۔شریرجنات سے بچنے کا عمل: فوقانی جن کہنے لگا: ہمارے بڑوں میں ایک بات زیادہ چلی آرہی ہے کہ جب میاں بیوی آپس میں ملیں تو اگر ایک دفعہ بھی اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھ لیں تو ان کے قریب جنات نہیں آتے اور ان کے اور جنات کے درمیان ایک غیبی نور کی چادر تن جاتی ہے اور ان کے اندر حفاظت کا ایک سامان ہوتا ہے اور ایسی حفاظت ہوتی ہے جسے کائنات کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی اور اگر یہ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم نہ پڑھیں تو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر جنات اپنی نجاست اور لعاب شامل کردیتے ہیں۔ اس سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اس اولاد میں غصہ، جھگڑے، لڑائی، نااہلی، لولے، لنگڑے، کانے، اپاہج یا مختلف علتوں اور گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں یا یہ ساری گندگیاں اور برائیاں ان میں ہوتی ہیں یا کوئی ایک گندگی برائی یا چند برائیاں ان کے اندر آجاتی ہیں۔ اور ان کی زندگی بس انہی مسائل میں مسلسل الجھی رہتی ہے۔ فوقانی ثانی جن کی زندگی تجربات کا مجموعہ:فوقانی ثانی جن کے واقعات اور اس کی زندگی کے مسلسل تجربات و مشاہدات میں سن رہا تھا اور اس کی باتوں میں میں گم تھا وہ ایسا جن جس کی زندگی تجربات کامجموعہ‘ ایسا جن جس کی زندگی مشاہدات کامجموعہ‘ وہ ایسا جن جس کی زندگی میں خلوص ہے‘ وہ ا یسا جن جس کی زندگی میں سچائی ہے‘ وہ ایسا جن جس کی زندگی میں ہمدردی ہے‘ وہ ایسا جن جو بیوہ عورتوں کی خدمت کرتا ہے‘ وہ ایسا جن جو لاوارث لوگوں کی رہبری کرتا ہے وہ ایسا جن جو اپاہج لوگوں کی مدد کرتا ہے‘ وہ ایسا جن جو بے آسرا لوگوںکا سہارا بن جاتا ہے‘ وہ ایسا جن جو رات میں بھی لوگوں کی مدد سے نہیں تھکتا‘ وہ ایسا جن ہے جو دن کےاجالوں میں بھی درد مندوں کو تلاش کرتا ہے‘ وہ ایسا جن جس کا دل مخلص ہے وہ ایسا جن جس کا دل پریشانوںکیلئے پریشان ہوجاتا ہے‘ وہ ایسا جن جس کی آنکھیں پتھر نہیں بلکہ چشمے ہیں‘ جو دکھیاروں کو دیکھ کر بہنا شروع ہوجاتی ہیں‘ وہ ایسا جن جو خلوص کا مجسمہ ہے‘ وہ ایسا جن جو مزاج میں نرمی رکھتا ہے‘ وہ ایسا جن جو خفیہ طور پر گھروں کی چوریاں نہیں کرتا اور رزق حلال کمانا عین عبادت سمجھتا ہے‘ وہ ایسا جن جو زندگی میں اول و آخر ہمیشہ جنات کا بھی ساتھی ہےا ور انسانوں کا بھی ہمدرد ہے۔ میری زندگی میں جتنے بھی جنات آتے ان سب جنات میں فوقانی ثانی جن ان چند مخلص لوگوں میں سے ہے جو اپنے ہر دن کو قیمتی‘ اپنی ہر رات کو سونے سے زیادہ انمول بناتا ہے‘وہ بولتا ہے تو آنسو تھم جاتے ہیں‘ وہ خاموش ہوتا ہے تو سسکیاں رک جاتی ہیں‘ وہ مسکراتا ہے تو بے شمار تڑپتے اور سلگتے دل اپنا غم بھول جاتے ہیں۔ میں نے اس جن سے بہت سیکھا‘ میں نے اس جن سے بہت پایا‘ مجھے اس جن کی زندگی نے وہ انمول یادیں، تحفے، راز اور کیفیات دیں جو میں کبھی بھلا نہ سکوں گا۔ میری ہر صبح‘ میری ہر شام فوقانی ثانی جن کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ جنات مجھے بچپن سے پیار کرتے ہیں: میرے پاس بہت زیادہ جنات کا آنا جانا ہے میں بہت زیادہ جنات سے شناسائی رکھتا ہوں‘ یہ آج کی بات نہیں یہ بچپن کی بات ہے جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جنات مجھ سے پیارکرتے تھے جب میں شعور میں آیا تو جنات مجھے کھانے پینے کی چیزیں دیتےتھے‘ میرے ساتھ انہوں نے ڈوب کر پیارکیا ‘میرے ساتھ انہوں نے ٹوٹ کر پیار کیا لیکن فوقانی ثانی ایک انوکھا مخلص محسن اور نیک سیرت جن ہے ایک دفعہ میں نے فوقانی ثانی جن سے ایک بات کہی میرے سامنے انسانی روپ میں آؤ‘ وعدہ کرلیا کہ میں ضرور آؤں گا، ایک دفعہ ایک ملاقاتی میرے پاس آیا۔ ایک خوبصورت تقریباً 35 سال کا جوان خوش لباس، خوش گفتار اس کے انگ انگ میں سے سلیقہ، صفائی اور طریقہ نظر آرہا تھا وہ شخص مجھ سے باتیں کرتا رہا باتیں کرتے کرتے پھر مجھے کہنے لگا میں آپ کا خادم فوقانی ثانی ہوں۔ ہمارے جنات کا انوکھا راج: میں حیرت سے اس کو دیکھنے لگ گیا اس کو گلے لگایا اور کہا جن ہو تو بہت اچھے ہو اور انسان کے روپ میں ہو تو بہت بہتر ہو۔ بس مجھ سے ایک وعدہ کرو جب بھی کہیں مرد کےر وپ میں جانا تو اسی روپ میں جانا تمہیں ہر دیکھنے والا پسند کرے گا اور ہردیکھنے والا تمہیںدیکھ کر خوش ہوگا۔ فوقانی ثانی کہنے لگا: ہمارے جنات میں ایک رواج ہے اور وہ رواج یہ ہے کہ ہم جب بھی اپنی بیٹی کی شادی کرتے ہیں تو چالیس دن ایک علیحدہ مکان میں اپنے داماد کو وہیں رکھتے ہیں اور داماد کا بیٹی کے ساتھ کردار، گفتار، چال چلن، ہم پرکھتے رہتے ہیں اور پڑھتے رہتے ہیں اس کے چال چلن، کردار گفتار میں جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جو واقعی بیٹی کو خوش رکھے اور اپنے اخلاق سے اس کو پیار کرے تو اس کو گھر بھیج دیتے ہیں اگر اس میں کوئی کمی دیکھتےہیں تو اسے ایک سال بڑے بوڑھوں کی صحبت میں رہنا پڑتا ہے تاکہ وہ اسے اخلاق کردار اور اطوار سکھائیں۔جینا اور زندگی کے ساتھ جینا: جب اس کو اخلاق کردار اطوار سکھاتے ہیں تو اس کے ساتھ اس کو ایک اور چیز بھی سکھاتے ہیں وہ ہےجینا اور زندگی کے ساتھ جینا اور لوگوں کے ساتھ جینا اور اس انداز سے جینا کہ تیرے جینے سے لوگوں کی زندگی متاثر نہ ہو پھر ایک سال کے بعد اس کو پرکھتے ہیں پھر ان دونوں کو اپنے گھر بھیج دیتے ہیں کہ وہ بقیہ زندگی ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھے انداز سے گزاریں یہ طریقہ نیک اور شریف جنات کا بتا رہا ہوں جبکہ شریر اور بدکار جنات کا یہ طریقہ نہیں ہے کیونکہ ان کی زندگی میں نہ تو جینا ہے‘ نہ مرنا ہے انہیں تو صرف ایک زندگی کا طریقہ آتا ہے کہ کس طرح جنات کو اذیت دی جائے اور انسانیت کو تکلیف دی جائے۔ جنات کا جینا دوبھر کردیا جائے اور انسانیت کا جینا حرام کردیا جائے بس! انہیں زندگی اسی انداز سے جینا اور مرنا سکھایا گیا ہے۔ جنات کا انسان عورتوں کو اٹھانا: ہمارے کتنے جنات ایسے ہیں جو انسانی عورتوں کو انسانی آبادیوں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں چند ہفتے چند مہینے اپنے پاس رکھتے ہیں جب جی بھر جاتا ہے تو واپس ان کے پاس چھوڑ جاتے ہیں لیکن ان عورتوں کو اٹھا کر لے جاتےہیں جن کےپاس اعمال ذکر نہیں صرف فیشن اور مغربی تہذیب کا انداز ان پر ہوتا ہے۔ کتنے شریر جنات ایسے ہیں جو لوگوں کے گھر سے پیسے چراتے ہیں، زیور، مال، راشن، چیزیں اور کپڑے چرا کر لے جاتے ہیں۔ جو کپڑے وہ نہیں چرا سکتے ان کوکاٹ دیتے ہیں یا بے کار کردیتے ہیں یا پھر آگ لگا دیتے ہیں۔ حسد کی وجہ سے کہتے ہیں یہ ہمارے پہننے کے نہیں یا پھر ہمارے استعمال میں نہیں تو پھر یہ انسانوں کے استعمال میں بھی نہ آئیں۔شریر جنات میں حسد بہت ہوتا ہے۔شریر جنات فتنے ہی فتنے: میں فوقانی جن کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا مزید کہنے لگا اگر شریر جنات کے ہاں جھگڑا شروع ہوتا ہے تو ان کا جھگڑا ہوتا ہی چلا جاتا ہے تو وہ نہ ختم ہونے والا جھگڑابن جاتاہے۔ ان کی زندگی میں شر بہت ہوتا ہے‘ فساد بہت ہوتا ہے اور شرارت بہت ہوتی ہے اور ان کی زندگی میں فتنے ہی فتنے ہوتے ہیں‘ فساد ہی فساد ہوتے ہیں‘ وہ کبھی بھی سکون سے نہ بیٹھتے ہیں نہ بیٹھنے دیتے ہیں‘ ان کی زندگی ہمیشہ شر اور فتنوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ اس آگ سے بنے ہوئے ہوتے ہیں جو آگ مسلسل سلگنے والی اور دھوئیں والی آگ ہوتی ہے‘ یہ شعلے والی آگ سے بنے ہوئے نہیں ہوتے ایسے جنات کبھی سفید اور گوری شکل کے نہیں ہوتے ہمیشہ سیاہ اور بدشکل کے ہوتے ہیں۔ باتوں میں کہاں سے کہاں نکل گیا:یہ باتیں ہوہی رہیں تھی کہ میں نے فوقانی ثانی جن سے سورہ ٔ عصر کے عمل کے بارے میں مزید پوچھا جو کہ وہ مزید مشاہدات بتارہا تھا اور وہ مشاہدات بتاتے بتاتے اپنی اور باتوں میں کہاں سے کہاں نکل گیا میری یاددہانی پر وہ چونک پڑا اور کہنے لگا: ہاں! اس کے واقعات میرے پاس بہت بے شمار ہیں یہ سورۂ صرف اس مسئلہ کیلئے نہیں بلکہ اس کے اتنے حیرت انگیز فائدے میں آپ کو بتاؤں کہ آپ کی عقل دنگ رہ جائے لیکن اس کے بتانے سے پہلے میں آپ کو ایک اور بات بتاتا چلوں جو کہ میرے مشاہدے میں مسلسل آئی ہے ۔ فوقانی ثانی جن یہ بات کہہ کر چند لمحوں کیلئے خاموش ہوگیا پھر بولا انسانی دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بے اعتماد ہوتے ہیں ان کے مزاج میں شاید رب پر اعتماد بھی ہے یا نہیں ہے۔ عمل ہمیشہ اس کو فائدہ دیتا ہے جس کو عمل کے اوپر اعتماد ہو اگر عمل پر اعتماد نہ ہو عمل کبھی بھی اس کو فائدہ نہیں دیتا‘ سورۂ عصر کا عمل بھی اس کو فائدہ دے گا جس کو یقین‘ اعتماد‘ توجہ اور سچی کیفیات کے جذبے سے کرے گا جس کے اندر بھی سچی خیرخواہی کا جذبہ ہوگا وہ اس عمل کو پورے یقین، پورے اعتماد اور پورےسچے جذبے سے کرکے وہ زندگی کے کمالات حاصل کرے گا جو کوئی دوسرا شخص سوچ ہی نہیں سکتا۔ فوقانی ثانی جن ٹھنڈا سانس بھر کر کہنے لگا میرے پاس ایسے بے شمار جنات اور انسانوں کے کیس ہیں میں نے اپنی بہت لمبی اور طویل عمر میںایسے ایسے تجربات دیکھے ہیں جو لوگ اس کو کرتے ہیں وہ پاتے ہیں‘ حاصل کرتے ہیں اور انہیں زندگی میںعروج، کمال اور زندگی کی سچائی ملتی ہے اور جو نہیں پاتے اور نہیں کرتے انہیں زندگی کا نہ کمال ملتا ہے‘ نہ بلندی ملتی ہے‘ نہ سچائی ملتی ہے۔تیرے یقین میںکمی: ایک جن کو میں نے یہی سورۂ عصر کا عمل بتایا اس نے پورے ستر دن کیا‘ ہر ہفتے دس دن کے بعد مجھے پیغام بھیجتا یا خود ملتا کہ میرا کام تو نہیں بنا اورمیں انہیں ہر دفعہ یہی کہتا تیرا کام نہیں بنے گا یقین والے کاضرور بنے گا۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ اور شک تھا کہ اس کا کام نہ بنا۔ حیران کن بات کہ اسی نے وہی عمل ایک دوسرے کو بتادیا حالانکہ اس نے مجھ سے اجازت بھی نہ لی تھی لیکن اس کا کام صرف چند ہی دنوں میں بن گیا اب حیران! مجھے کہنے لگا آپ نے مجھے توجہ نہیں دی‘ دعا نہیں دی‘ میں نے کہا: حیرت کی بات ہے! جس کو میں جانتا نہیں اس کا کام تو ہوگیا‘ ہوا صرف یقین پر! اس کا یقین کامل تھا‘ مکمل تھا‘ اوردیوانگی کی حد تک تھا اس کا کام سوفیصد ہوگیا تیرا یقین کامل مکمل نہیں تھا اور تیرا کام نہیں ہوا یاد رکھ! جتنا یقین ہوگا اتنا اعتماد پر فیصلہ ہوگا اتنی زندگی کے مسائل اورمشکلات حل ہوں گی اور پریشانیاں دور ہوں گی اور زندگی خیروں اور برکتوں کی طرف بڑھتی اور ڈھلتی چلی جائے گی۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں